نمونۂ کلام
غزل بھنور میں رہ کے کنارے تلاش کرتا ہوں میں دوستوں کے سہارے تلاش کرتا ہوں مجھے تلاش ہے ماضی کی یادگاروں کی میں آج نامے تمہارے تلاش کرتا ہوں بڑے فریب دیے ہاتھ کی لکیروں نے اب آسمان میں تارے تلاش کرتا ہوں شب ِ وصال کے لمحوں کو ڈھوندنے کے لیے جو پل تھے ساتھ گزارے تلاش کرتا ہوں کسی کی آنکھ میں مدًت کے بعد اے سیّد میں آج پھر وہ اشارے تلاش کرتا ہوں |
غزل درد قسمت میں لکھا ہے تو لکھا رہنے دو ہاتھ سینے پہ رکھا ہے تو رکھا رہنے دو یہ نشانی ہے کسی ہمدم ِ دیرینہ کی درد پہلو میں اٹھا ہے تو اٹھا رہنے دو اپنی قسمت سے کہیں کاتب ِ تقدیر اگر پیار کا لفظ مٹا ہے تو مٹ ا رہنے دو عشق کی لاج ہے یہ خانہ بدوشی میری آشیاں میرا لُٹا ہے تو لُٹا رہنے دو چاند کو دیکھنے دو حسن کی صورت اِمشب رُخ سے آنچل جو ہٹا ہے تو ہٹا رہنے دو تم کو دیکھے گا کوئ وقت ِ نزع میں کیوں کر سر ندامت سے جھکا ہے تو جھکا رہنے دو وقت ِ رخصت تری آنکھیں نہ کوئ بات کریں اشک آنکھوں میں رکا ہے تو رکا رہنے دو نام آۓ نہ زباں پر کسی ہرجائ کا راز دنیا سے چھپا ہے تو چھپا رہنے دو |