نمونۂ کلام
غزل اپنی ہی ذات کے اثبات سے ڈر لگتا ہے میں وہ جگنو ہوں جسے رات سے ڈر لگتا ہے جانے کس حال میں رکھے گا ہمیں آپ کا غم آپ کے غم کی کرامات سے ڈر لگتا ہے میرے ساۓ سے بھی رکھتا ہے بچا کر خود کو وہ جسے وصل کے لمحات سے ڈر لگتا ہے ہِل نہ جاۓ کہیں بنیاد میرے اشکوں کی پے بہ پے وقت کے صدمات سے ڈر لگتا ہے میرے سینے میں دھڑکتی ہیں دعائیں لیکن میرے ہونٹوں کو مناجات سے ڈر لگتا ہے مُڑ کے پیچھےکی طرف کس طرح دیکھوں کہ مجھے اپنے قدموں کے نشانات سے ڈر لگتا ہے جم نہ جاۓ مِری پلکوں پہ تِری یاد کی گرد شیشۂ خواب کی سوغات سے ڈر لگتا ہے |
غزل اک گزشتہ بہار ہوں میں بھی دامنِ گُل کا تار ہوں میں بھی وہ مجھے کیسے بھول سکتا ہے اُس کے دل کا قرار ہوں میں بھی جانتا ہے ستارۂِ سحری کشتۂِ انتظار ہوں میں بھی آپ اگر آسماں کے تارے ہیں تو زمیں کا غبار ہوں میں بھی کون سمجھےگا آنسوؤں کی زباں چشمِ نم کی پکار ہوں میں بھی بن گیا تھا میں اُس کی خاکِ پا اب ہوا پر سوار ہوں میں بھی ہنستا رہتا ہوں بے سبب اکثر کس قدر سوگوار ہوں میں بھی ریگِ صحرا ہے میری رُوحِ رواں نافۂ مشکبار ہوں میں بھی |