حکیم اللہ رکھا ناز
تاریخ پیدائش 20 دسمبر 1943ء ہے۔ محلہ آصف آباد ملکیار روڈ ہری پور کے رہنے والے ہیں۔ میٹرک کے بعد مکینیکل ڈپلومہ حاصل کیا پھر ٹیلیفون فیکٹری ہری پور میں ملازمت کی۔
نغمہ نگار اور غزل گو شاعر ہیں۔ حمد ونعت میں بھی طبع آزمائ کی ہے۔ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سے ان کے ملی نغمے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ رابطہ نمبر: 03345661467 |
نمونۂ کلام
غزل مچلتے دل کی دھڑکن کا ذرا انجام پا لیتے تو پھر اس بے قراری کو قرارِ غم بنا لیتے جو میں نے درد کو پلٹا تو پھر بھی درد ہی پایا پلٹتے درد کو گر تم دوائے درد پا لیتے مثالِ شمع ہر محفل میں تھی اک آگ سی دل میں ڈھلک جاتے اگر آنسو تو شعلوں کو بجھا لیتےس محبت غم کی راہوں میں اگر پھولوں کو بکھراتی تو پھر زخمِ جگر سے درد کا ہم کیا مزا لیتے جنونِ سجدہ کی دل میں ہے پنہاں اک ادا باقی لُٹا کر ہم متاعِ زندگی تجھ کو منا لیتے غمِ الفت کو پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے بڑا ہی ناز ہو جاتا اگر تم آزما لیتے |
ملی نغمہ وطن میں خوشی کے یوں دیپک جلائیں سبھی مسکرائیں سبھی گنگنائیں گلوں کی طرح سے ذرا مسکرا کر وطن میں رہیں ہم دلوں کو ملا کر محبت دلوں میں یوں مل کر بسائیں سبھی مسکرائیں سبھی گنگنائیں ہمارے وطن پہ خدا مہرباں ہو گلستاں گلستاں وطن کا سماں ہو یوں محنت سے ہم سب وطن کو سجائیں سبھی مسکرائیں سبھی گنگنائیں |
لمحۂ فکر بے حجابی ہے نئے دور کا سامانِ کہن شورشِ غیر پہ نازش ہیں جوانانِ وطن ہو گئی رقصِ شرر شعلہ فشان غیرِ خرام وہ جلا تیرا نشیمن وہ جلا میرا چمن موسمِ گل میں وہ پہلی سی بہاریں نہ رہیں نہ وہ غنچے ہی کھلےجن سے چلے بُوئے سمن قوًتِ مہر میں وہ غیظ و غضب راج ہوا بنی اغیار کی دنیا سرِ ہنگامہ فتن بحرِ ہستی سے مٹی طاقتِ پرواز تری دمِ آہو میں رہا دم نہ تگ و تا ز کی دھُن ہوئی رخصت جو ترے تن میں تھی اُلفت کی پھبن ہے بہم اپنوں کا اِک فتنہ و الحاد کا فن جو تہی دست اخوت میں کٹی راہ تری کیا کہے گی یہ زمیں، ہے بھی کہیں حبِ وطن ہو گیا رنگِ چمن رنگِ طرب سے ویراں غمِ فردا سے نہیں کاش کسی دل کی لگن یہ تنک مایہ چمن جوہرِ قابل تھا کبھی تھی زمیں رتبۂ عالی کے سبب رشکِ چمن کیا تعجب ہے جو اندازِ خرد ہو بہ عمل تو ہو تدبیرِ گہر مثلِ فلاطونِ زمن تیری محفل میں سدا رنگِ بہاراں ہی رہے ابرِ الطاف و عنایت سے پھلے پھُولے چمن رُوحِ احرار معطر ہی رہے ناز امم رفعتِ جذبِ بہم ہو تری تعمیرِ وطن |